خدا علی گڑھ کی مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے
بھرے ہوئے ہیں رئیس زادے امیر زادے شریف زادے
لطیف و خوش وضع چست و چالاک و صاف و پاکیزہ شاد و خرم
طبیعتوں میں ہے ان کی جودت دلوں میں ان کے ہیں نیک ارادے
کمال محنت سے پڑھ رہے ہیں کمال غیرت سے بڑھ رہے ہیں
سوار مشرق کی راہ میں ہیں تو مغربی راہ میں پیادے
ہر اک ہے ان میں کا بے شک ایسا کہ آپ اسے جانتے ہیں جیسا
دکھائے محفل میں قد رعنا جو آپ آئیں تو سر جھکا دے
فقیر مانگیں تو صاف کہہ دیں کہ تو ہے مضبوط جا کما کھا
قبول فرمائیں آپ دعوت تو اپنا سرمایہ کل کھلا دے
بتوں سے ان کو نہیں لگاوٹ مسوں کی لیتے نہیں وہ آہٹ
تمام قوت ہے صرف خواندن نظر کے بھولے ہیں دل کی سادے
نظر بھی آئے جو زلف پیچاں تو سمجھیں یہ کوئی پالسی ہے
الکٹرک لائٹ اس کو سمجھیں جو برق وش کوئی کوئی دے
نکلتے ہیں کر کے غول بندی بنام تہذیب و درد مندی
یہ کہہ کے لیتے ہیں سب سے چندے ہمیں جو تم دو تمہیں خدا دے
انہیں اسی بات پر یقین ہے کہ بس یہی اصل کار دیں ہے
اسی سی ہوگا فروغ قومی اسی سے چمکیں گے باپ دادے
مکان کالج کے سب مکیں ہیں ابھی انہیں تجربے نہیں ہیں
خبر نہیں ہے کہ آگے چل کر ہے کیسی منزل ہیں کیسی جادے
دلوں میں ان کے ہے نور ایماں قوی نہیں ہے مگر نگہباں
ہوائے منطق ادائے طفلی یہ شمع ایسا نہ ہو بجھا دے
فریب دے کر نکالے مطلب سکھائے تحقیر دین و مذہب
مٹا دے آخر کو وضع ملت نمود ذاتی کو گر بڑھا دے
یہی بس اکبرؔ کی التجا ہے جناب باری میں یہ دعا ہے
علوم و حکمت کا درس ان کو پروفیسر دیں سمجھ خدا دے
غزل
خدا علی گڑھ کی مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے
اکبر الہ آبادی