خود تماشہ بن گئی چشم تماشائی کہ بس
سنگ در پر آج کی ہے وہ جبیں سائی کہ بس
توڑ ڈالا میں نے آخر اس کا کج عکس آئنہ
ورنہ وہ یوں تھا عجب محو تماشائی کہ بس
ایسا لگتا ہے کہ بزم ناز میں تنہا ہوں میں
چشم بینا ہو تو ہے وہ بزم آرائی کہ بس
ذرے ذرے کی زباں پر نغمۂ جاں سوز ہے
دشت زار غم نے ایسی خاک چھنوائی کہ بس
اجنبی لگنے لگا ہے صبح خنداں کا جمال
یوں ہوئی رخصت مری آنکھوں کی بینائی کہ بس
دور سے جب ساحل امید و یاس آیا نظر
دفعتاً اک موج کشتی سے وہ ٹکرائی کہ بس
اس قدر ہیبت زدہ تھا عہد ترک دوستی
اول اول تو طبیعت ایسی گھبرائی کہ بس
طائر سدرہ بھی خائف تھا مری پرواز سے
آ کے منزل کے قریب اک چوٹ وہ کھائی کہ بس
آج تک ابھری نہیں ہے کشتئ عمر رواں
آبجوۓ درد میں تھی ایسی گہرائی کہ بس
میں کہ خواب ناز میں آسودہ شب ہونے کو تھا
صور اسرافیل کی ایسی صدا آئی کہ بس
رفتہ رفتہ جل کے خاکستر ہوئی اقلیم جاں
چھٹ گئے بادل مگر پھر دھوپ وہ چھائی کہ بس
عقدۂ حیرت مظفرؔ جس گھڑی کھلنے کو تھا
زندگی نے کان میں وہ بات بتلائی کہ بس

غزل
خود تماشہ بن گئی چشم تماشائی کہ بس
مظفر احمد مظفر