خود سے اتنی بھی عداوت تو نہیں کر سکتا
اب کوئی مجھ سے محبت تو نہیں کر سکتا
کیوں نبھائے گا وہ پیمان وفا مجھ سے کہ وہ
ساری دنیا سے بغاوت تو نہیں کر سکتا
گو وہ مجرم ہے مرا پھر بھی کسی شخص سے میں
اپنے دلبر کی شکایت تو نہیں کر سکتا
دو گھڑی سانس تو لینے دے مجھے اے غم دہر
کوئی ہر آن مشقت تو نہیں کر سکتا
خاص ہوتا ہے کسی کا کوئی منظور نظر
کوئی ہر اک پہ عنایت تو نہیں کر سکتا
کیسے لکھوں میں اندھیرے کو اجالا کاشفؔ
اپنے فن سے میں خیانت تو نہیں کر سکتا
غزل
خود سے اتنی بھی عداوت تو نہیں کر سکتا
کاشف رفیق