EN हिंदी
خود سے بھی وہ ڈرتا ہوگا | شیح شیری
KHud se bhi wo Darta hoga

غزل

خود سے بھی وہ ڈرتا ہوگا

خالد محمود امر

;

خود سے بھی وہ ڈرتا ہوگا
وہ بھی میرے جیسا ہوگا

زخم جگر سے جو ٹپکا ہے
اس کی آنکھ سے بہتا ہوگا

سوچوں میں آئے چپکے سے
ننگے پاؤں چلتا ہوگا

در پہ دستک دینے والا
اس کی یاد کا جھونکا ہوگا

مہک اٹھا ہے میرا بدن بھی
خوشبو میں وہ رہتا ہوگا

سطح آب پہ اک چہرہ ہے
لہروں میں وہ رہتا ہوگا

اب تو خواب جزیروں میں وہ
یاد کے کنکر چنتا ہوگا

کھویا کھویا سا خود میں ہی
لوگوں سے وہ ملتا ہوگا

دیکھ کے گرتے پتوں کو وہ
پہروں بیٹھ کے روتا ہوگا

دشت غم کے سناٹے میں
وہ بھی تنہا تنہا ہوگا

دل میں چھپا کر میری یادیں
پہروں نظمیں لکھتا ہوگا

مست ہواؤں سے ہی عمرؔ وہ
میرے نغمے سنتا ہوگا