خود سے اب مجھ کو جدا یوں ہی مری جاں رکھنا
ہر گھڑی خواب کو تم خواب پریشاں رکھنا
اب عبادت کی یہی ایک ہے صورت باقی
آنکھ کو بند کیے ہونٹ ثنا خواں رکھنا
خواب کو ذہن کہاں ہے نہ یہاں ہے نہ وہاں
دل کے آنگن میں کہیں گور غریباں رکھنا
برہنہ رہنے کی توفیق کہاں سے لائے
خود کو آیا ہی نہیں بے سر و ساماں رکھنا
راہ چلتے ہیں تو دیوار اٹھا لیتے ہیں
کتنا دشوار ہے آساں کو بھی آساں رکھنا
کیا سلیقہ تھا وہ غالبؔ ہوں کہ ہوں میرؔ و فراقؔ
ہجر میں وصل کا وہ نقش گریزاں رکھنا
غزل
خود سے اب مجھ کو جدا یوں ہی مری جاں رکھنا
عزیز پریہار