خود سوال آپ ہی جواب ہوں میں
زندگی کی کھلی کتاب ہوں میں
یوں تو اک جرعۂ شراب ہوں میں
گردش وقت کا جواب ہوں میں
جستجوئے سکون دل تھی مجھے
غرق دریائے اضطراب ہوں میں
میری قیمت ہے پیار کے دو بول
کتنے سستے میں دستیاب ہوں میں
کبھی نغمہ طراز تھا میں بھی
آج ٹوٹا ہوا رباب ہوں میں
رنج غم درد بے کسی حسرت
میرؔ کا جیسے انتخاب ہوں میں
کون مجھ پر یقین لائے گا
اپنی نظروں میں خود سراب ہوں میں
پہلے سیلاب سے پریشاں تھا
اب کہ محو تلاش آب ہوں میں
مختلف رنگ ہیں مرے عابدؔ
کبھی جلوہ کبھی حجاب ہوں میں
غزل
خود سوال آپ ہی جواب ہوں میں
عابد مناوری