خود پر جو اعتماد تھا جھوٹا نکل گیا
دریا مرے قیاس سے گہرا نکل گیا
شاید بتا دیا تھا کسی نے مرا پتہ
میلوں مری تلاش میں رستہ نکل گیا
سورج غروب ہوتے ہی تنہا ہوئے شجر
جانے کہاں اندھیروں میں سایہ نکل گیا
دامن کے چاک سینے کو بیٹھے ہیں جب بھی ہم
کیوں بار بار سوئی سے دھاگا نکل گیا
کچھ اور بڑھ گئی ہیں شجر کی اداسیاں
شاخوں سے آج پھر کوئی پتا نکل گیا
پہلے تو بس لہو پہ یہ الزام تھا مگر
اب آنسوؤں کا رنگ بھی کچا نکل گیا
اب تو سفر کا کوئی بھی مقصد نہیں رہا
یہ کیا ہوا کہ پاؤں کا کانٹا نکل گیا
یہ اہل بزم کس لیے خاموش ہو گئے
توبہ مری زبان سے یہ کیا نکل گیا
غزل
خود پر جو اعتماد تھا جھوٹا نکل گیا
بھارت بھوشن پنت