EN हिंदी
خود مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ میں کیا ہوں | شیح شیری
KHud mujhko bhi malum nahin hai ki main kya hun

غزل

خود مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ میں کیا ہوں

مظفر حنفی

;

خود مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ میں کیا ہوں
اب تک تو خود اپنی ہی نگاہوں سے چھپا ہوں

حالات کے نرغے میں کچھ اس طرح گھرا ہوں
محسوس یہ ہوتا ہے تجھے بھول چکا ہوں

سمجھا تھا کہ روداد نئے دور کی ہوگی
آیا ہے ترا نام تو میں چونک اٹھا ہوں

شاید کبھی بچپن میں کہیں ساتھ رہا ہے
آئنے میں اک شکل کو پہچان رہا ہوں

زلفوں کے مہکتے ہوئے سائے کی طلب میں
تپتی ہوئی راہوں پہ بہت دور گیا ہوں

محجوب سا تنہائی کا احساس کھڑا ہے
بستر پہ بڑی دیر سے خاموش پڑا ہوں

اب سوچنے بیٹھا ہوں کہ مصرف مرا کیا ہے
مجبور محبت ہوں نہ پابند وفا ہوں

سنیے تو مظفرؔ کا ہر اک شعر کہے گا
میں ٹوٹے ہوئے ساز کی بے چین صدا ہوں