خود میں زنداں میں ہوں تیرگی کے
حرف دوں گا یونہی روشنی کے
میں اسے کارنامہ کہوں گا
کوئی پہچان لے دکھ کسی کے
خود بھی میں جل رہا ہوں جلا کر
طاق جاں میں چراغ آگہی کے
میرے اسباب نام و نمو کیا
بس یہی بانکپن سادگی کے
سب غبار اپنی اپنی ہوا میں
اس گلی کے ہوں یا اس گلی کے
موت کا در کھلا کیا کہ مجھ پر
سارے در کھل گئے زندگی کے
ہمرہی تو بجا سوچ لیجے
راستے سخت ہیں راستی کے
غزل
خود میں زنداں میں ہوں تیرگی کے
محشر بدایونی