EN हिंदी
خود کو سمجھا ہے فقط وہم و گماں بھی ہم نے | شیح شیری
KHud ko samjha hai faqat wahm-o-guman bhi humne

غزل

خود کو سمجھا ہے فقط وہم و گماں بھی ہم نے

ضیا جالندھری

;

خود کو سمجھا ہے فقط وہم و گماں بھی ہم نے
خود کو پایا ہے دل کون و مکاں بھی ہم نے

دیکھ پھولوں سے لدے دھوپ نہائے ہوئے پیڑ
ہنس کے کہتے ہیں گزاری ہے خزاں بھی ہم نے

شفق صبح سے تابندہ سمن زار سے پوچھ
رات کاٹی سوئے گردوں نگراں بھی ہم نے

دیکھ کر ابر بھر آئی ہیں خوشی سے آنکھیں
سوکھتے ہونٹوں پہ پھیری ہے زباں بھی ہم نے

جن کے گیتوں میں ہے نکہت کی لپک پھول کا رس
سالہا سال سنی ان کی فغاں بھی ہم نے

اب امنگیں ہیں ترنگیں ہیں ترنم افشاں
خواہشیں دیکھیں ہیں محروم زباں بھی ہم نے

اب نظر آئے ہیں آسودۂ منزل تو کیا
دیکھی کیا کیا تپش ریگ رواں بھی ہم نے