خود کو کتنا چھوٹا کرنا پڑتا ہے
بیٹے سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے
جب اولادیں نا لائق ہو جاتی ہیں
اپنے اوپر غصہ کرنا پڑتا ہے
سچائی کو اپنانا آسان نہیں
دنیا بھر سے جھگڑا کرنا پڑتا ہے
جب سارے کے سارے ہی بے پردہ ہوں
ایسے میں خود پردہ کرنا پڑتا ہے
پیاسوں کی بستی میں شعلے بھڑکا کر
پھر پانی کو مہنگا کرنا پڑتا ہے
ہنس کر اپنے چہرہ کی ہر سلوٹ پر
شیشے کو شرمندہ کرنا پڑتا ہے
غزل
خود کو کتنا چھوٹا کرنا پڑتا ہے
نواز دیوبندی