EN हिंदी
خود کو کسی کی راہ گزر کس لیے کریں | شیح شیری
KHud ko kisi ki rahguzar kis liye karen

غزل

خود کو کسی کی راہ گزر کس لیے کریں

اطہر ناسک

;

خود کو کسی کی راہ گزر کس لیے کریں
تو ہم سفر نہیں تو سفر کس لیے کریں

جب تو نے ہی نگاہ میں رکھا نہیں ہمیں
اب اور کسی کی روح میں گھر کس لیے کریں

کیوں چھوڑ دیں نہ شام سے پہلے ہی تیرا شہر
تجھ سے بچھڑ کے رات بسر کس لیے کریں

منسوب جاں ہو اور کوئی پیکر جمال
کر سکتے ہیں یہ کام مگر کس لیے کریں

کس کے لیے چراغ جلائیں تمام رات
ناسکؔ پھر اہتمام‌ سحر کس لیے کریں