خود کو کسی کی راہ گزر کس لیے کریں
تو ہم سفر نہیں تو سفر کس لیے کریں
جب تو نے ہی نگاہ میں رکھا نہیں ہمیں
اب اور کسی کی روح میں گھر کس لیے کریں
کیوں چھوڑ دیں نہ شام سے پہلے ہی تیرا شہر
تجھ سے بچھڑ کے رات بسر کس لیے کریں
منسوب جاں ہو اور کوئی پیکر جمال
کر سکتے ہیں یہ کام مگر کس لیے کریں
کس کے لیے چراغ جلائیں تمام رات
ناسکؔ پھر اہتمام سحر کس لیے کریں
غزل
خود کو کسی کی راہ گزر کس لیے کریں
اطہر ناسک