خود کو ہجوم دہر میں کھونا پڑا مجھے
جیسے تھے لوگ ویسا ہی ہونا پڑا مجھے
دشمن کو مرتے دیکھ کے لوگوں کے سامنے
دل ہنس رہا تھا آنکھ سے رونا پڑا مجھے
کچھ اس قدر تھے پھول زمیں پر کھلے ہوئے
تاروں کو آسمان میں بونا پڑا مجھے
ایسی شکست تھی کہ کٹی انگلیوں کے ساتھ
کانٹوں کا ایک ہار پرونا پڑا مجھے
کاری نہیں تھا وار مگر ایک عمر تک
آب نمک سے زخم کو دھونا پڑا مجھے
آساں نہیں ہے لکھنا غم دل کی واردات
اپنا قلم لہو میں ڈبونا پڑا مجھے
اتنی طویل و سرد شب ہجر تھی نسیمؔ
کتنی ہی بار جاگنا سونا پڑا مجھے
غزل
خود کو ہجوم دہر میں کھونا پڑا مجھے
افتخار نسیم