خود کسی سطح پہ آنے میں بڑا وقت لگا
اپنی پہچان بنانے میں بڑا وقت لگا
خواہش دید کے اظہار میں بھی دیر لگی
ان کو بھی پردہ اٹھانے میں بڑا وقت لگا
گھر سے ہجرت پہ نکل جانا تھا لمحوں کا عمل
پھر کہیں بسنے بسانے میں بڑا وقت لگا
تعزیت کیجیے اب وقت عیادت تو گیا
آپ آئے مگر آنے میں بڑا وقت لگا
برق نے پھونک دیا تھا جسے آناً فاناً
اس نشیمن کو بنانے میں بڑا وقت لگا
ساعت عیش کے ارماں کا نتیجہ معلوم
غم سے دامن کو چھڑانے میں بڑا وقت لگا
کیسے حالات کی دلدل سے نکلتے کہ وقارؔ
پاؤں بھی ہم کو جمانے میں بڑا وقت لگا

غزل
خود کسی سطح پہ آنے میں بڑا وقت لگا
وقار مانوی