خود خموشی کے حصاروں میں رہے
رات بھر چرچے ستاروں میں رہے
تھی زمین گل نظر کے سامنے
جادہ پیما ریگ زاروں میں رہے
ہو گئے ہیں کتنے منزل آشنا
کتنے رہ رو رہ گزاروں میں رہے
ہو گئیں غرقاب کتنی بستیاں
کتنے طوفاں جوئباروں میں رہے
ظلمت شب پاس آ سکتی نہیں
مدتوں ہم ماہ پاروں میں رہے
ہے خزاں کی دھول کی تن پر تہیں
ہم رہے تو نو بہاروں میں رہے

غزل
خود خموشی کے حصاروں میں رہے
حامدی کاشمیری