EN हिंदी
خود ہی تسلیم بھی کرتا ہوں خطائیں اپنی | شیح شیری
KHud hi taslim bhi karta hun KHataen apni

غزل

خود ہی تسلیم بھی کرتا ہوں خطائیں اپنی

محسن اسرار

;

خود ہی تسلیم بھی کرتا ہوں خطائیں اپنی
اور تجویز بھی کرتا ہوں سزائیں اپنی

کوئی دیکھے تو ادا کاریاں کرنا اس کا
بند آئینے میں کرتی ہے ادائیں اپنی

میں سخن ور ہوں سو خاموش نہیں رہ سکتا
میں نے آنکھوں میں بسائی ہیں صدائیں اپنی

کیا زمانہ تھا کہ ہم خوب جچا کرتے تھے
اب تو مانگے کی سی لگتی ہیں قبائیں اپنی

مال ہے پاس نہ ہم چرب زباں ہیں محسنؔ
شہر میں کس طرح پھر ساکھ بنائیں اپنی