خود ہی بے آسرا کرتے ہیں
ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کرتے ہیں
رات بھر پیڑ چپ بھی رہتے ہیں
دل میں محشر بپا بھی کرتے ہیں
چھین لیتے نہیں بصارت ہی
وہ تو بے دست و پا بھی کرتے ہیں
کوئی پہچان ہو نہیں پاتی
پردے کیا کیا اٹھا بھی کرتے ہیں
آتے ہی سر قلم نہیں کرتے
پہلے خود آشنا بھی کرتے ہیں
وار کرتے نہیں وہ چھپ کر ہی
کشت و خوں برملا بھی کرتے ہیں

غزل
خود ہی بے آسرا کرتے ہیں
حامدی کاشمیری