خود فریبی ہے دغا بازی ہے عیاری ہے
آج کے دور میں جینا بھی اداکاری ہے
تم جو پردیس سے آؤ تو یقیں آ جائے
اب کے برسات یہ سنتے ہیں بڑی پیاری ہے
میرے آنگن میں تو کانٹے بھی ہرے ہو نہ سکے
اس کی چھت پہ تو مہکتی ہوئی پھلواری ہے
چوڑیاں کانچ کی قاتل نہ کہیں بن جائیں
سحر انگیز بری ان کی گلوکاری ہے
کاش بجلی کوئی چمکے کوئی بادل برسے
آج کی شام زمینوں پہ بہت بھاری ہے
کھا گئی گرمئ جذبات کو رسموں کی ہوا
آج ہر شخص فقط برف کی الماری ہے
میں بھی رادھا سے کوئی کم تو نہیں ہوں شبنمؔ
سانولے رنگ کا میرا بھی تو گردھاری ہے

غزل
خود فریبی ہے دغا بازی ہے عیاری ہے
رفیعہ شبنم عابدی