خود فراموش جو پایا ہے مجھے دنیا نے
میرے ہاتھوں سے بھی لوٹا ہے مجھے دنیا نے
دل تو بے دام بکا ذہن کی قیمت نہ لگی
کیسے بازار میں بیچا ہے مجھے دنیا نے
وقف جذبات نہ ہونے کی سزا دی ہے عجب
آتش سرد میں پھونکا ہے مجھے دنیا نے
ہم سفر مجھ کو بنانے سے گریزاں ہے مگر
ہر نئے موڑ پہ ڈھونڈا ہے مجھے دنیا نے
بے اثر میری فتوحات رہی ہیں اخترؔ
میں جو ہارا ہوں تو پوجا ہے مجھے دنیا نے
غزل
خود فراموش جو پایا ہے مجھے دنیا نے
اختر بستوی