خود اپنی ذات کی تشہیر کو بہ کو کیے جائیں
خدا ملے نہ ملے اس کی جستجو کیے جائیں
عجیب جاری ہوا اب کے حکم حاکم شہر
اسیر سارے طرف دار رنگ و بو کیے جائیں
ہمیں پسند نہیں ظرف مے میں قطرۂ مے
ہمارے سامنے خالی خم و سبو کیے جائیں
جہاں بھی آئیں نظر چاک چاک دامن دل
وہ تار پیرہن عشق سے رفو کیے جائیں
کچھ اب کے ایسے پڑا سایۂ تنک ظرفی
سمندروں کو بھی ہم لوگ آب جو کیے جائیں
خزاں نے جن کے مقدر میں زردیاں لکھ دیں
ہم ان گلاب رتوں کو بھی سرخ رو کیے جائیں
جناب محسنؔ احساں سے التجا ہے کہ وہ
پہنچ گئے ہیں سر آب تو وضو کیے جائیں
غزل
خود اپنی ذات کی تشہیر کو بہ کو کیے جائیں
محسن احسان