خود اپنی لو میں تھا محراب جاں میں جلتا تھا
وہ مشت خاک تھا لیکن چراغ جیسا تھا
وہ گم ہوا تو مضامین ہو گئے بے ربط
وہی تو تھا جو مرا مرکزی حوالہ تھا
مرے خیال کی تجسیم ہے وجود ترا
ترے لیے بڑی شدت سے میں نے سوچا تھا
وہ صرف اپنی حدود و قیود کا نکلا
اس ایک شخص کو کیا کیا سمجھ کے چاہا تھا
مکاں بنا کے اسے بند کر دیا ورنہ
یہ راستہ کسی منزل کو جانے والا تھا
یہ واقعہ ہے کہ ہم نے وہ روئے نادیدہ
بغیر منت چشم و نگاہ دیکھا تھا
معانیٔ شب تاریک کھل رہے تھے سلیمؔ
جہاں چراغ نہیں تھا وہاں اجالا تھا

غزل
خود اپنی لو میں تھا محراب جاں میں جلتا تھا
سلیم احمد