خود اپنے اجالے سے اوجھل رہا ہے دیا جل رہا ہے
نہیں جانتے کس طرح جل رہا ہے دیا جل رہا ہے
سمندر کی موجوں کو چھو کر ہوائیں پلٹنے لگی ہیں
ستارہ فلک پر کہیں چل رہا ہے دیا جل رہا ہے
کوئی فیصلہ تو کرو راستے سے گزرتی ہواؤ
یہ قصہ بڑی دیر سے ٹل رہا ہے دیا جل رہا ہے
کہیں دور تک کوئی جگنو نہیں ہے ستارے بجھے ہیں
چمکتا ہوا چاند بھی ڈھل رہا ہے دیا جل رہا ہے
کوئی یاد پھر دل میں آ کر بسی ہے مہک سی ہوئی ہے
کوئی خواب آنکھوں میں پھر پل رہا ہے دیا جل رہا ہے
غزل
خود اپنے اجالے سے اوجھل رہا ہے دیا جل رہا ہے
انعام ندیمؔ