خود اپنے جرم کا مجرم کو اعتراف نہ تھا
مگر یہ جذبہ بنام جنوں معاف نہ تھا
پگھل تو سکتا ہے لوہا نگاہ عزم تو ہو
یہ پہلے قید کی دیوار میں شگاف نہ تھا
حسد کی گرد تھیں بغض اور نفرت کی
مرے وجود پہ ایسا کوئی غلاف نہ تھا
الجھ رہے ہیں بہت لوگ میری شہرت سے
کسی کو یوں تو کوئی مجھ سے اختلاف نہ تھا
ترے جمال سے محفل میں اب سکون سا ہے
وگرنہ ذہن کسی کا کسی سے صاف نہ تھا
مرا نصیب کہ کشتی کنارے لگ نہ سکی
ہوا کا جھونکا تو ویسے مرے خلاف نہ تھا
جدید لہجہ یہ انداز کس لیے بیکلؔ
تجھے تو حسن روایت سے انحراف نہ تھا
غزل
خود اپنے جرم کا مجرم کو اعتراف نہ تھا
بیکل اتساہی