خود اپنے عکس کو حیرت سے دیکھتا ہوں میں
کنار آب بڑی دیر سے کھڑا ہوں میں
سوانگ بھرتا پھروں کب تلک محبت کے
میں کیوں نہ صاف ہی کہہ دوں کہ بے وفا ہوں میں
سنا نہ قصے مجھے دامنوں کی عصمت کے
کہ تیرے شہر کے لوگوں کو جانتا ہوں میں
وہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ دیکھنے کو کئی بار رک گیا ہوں میں
میں آج دیکھ سکوں گا طلوع کا منظر
کہ رات بیت چلی اور جاگتا ہوں میں
ستم ہے تو بھی مجھے خود غرض سمجھتا ہے
کہ تیرے حق میں تو خود سے بھی لڑ رہا ہوں میں
وہ جی رہے ہیں کہ جو سوچ سے ہوئے عاری
میں مر رہا ہوں کہ بیتابؔ سوچتا ہوں میں
غزل
خود اپنے عکس کو حیرت سے دیکھتا ہوں میں
سلیم بیتاب