خود اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے
ہمارے ساتھ یہ اکثر ہوا ہے
یہ مجھ سے زندگی جو مانگتا ہے
نہ جانے کون یہ مجھ میں چھپا ہے
یہی میری شکستوں کا صلا ہے
کوئی میرے بدن میں ٹوٹتا ہے
کتاب گل کا رنگیں ہر ورق ہے
تمہارا نام کس نے لکھ دیا ہے
صلیب وقت پہ تنہا کھڑا ہوں
یہ سارا شہر مجھ پر ہنس رہا ہے
کبھی نیند آ گئی دیوانگی کو
کبھی صحرا بھی تھک کر سو گیا ہے
شمیمؔ اک برگ آوارہ تھا جامیؔ
خلاؤں میں کہیں اب کھو گیا ہے
غزل
خود اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے
مختار شمیم