خود آزما کے بھی دعوے اجل کے دیکھتے ہیں
دیار شوق میں اک بار چل کے دیکھتے ہیں
پگھلتی ہے کہ نہیں برف نا شناسائی
کسی کی گرم نگاہی سے جل کے دیکھتے ہیں
یہ دشت ہو سر گلشن کہاں سے آ نکلا
یہ معجزہ ہے تو گھر سے نکل کے دیکھتے ہیں
جنہیں ملی ہی نہیں چشم و دل کی بینائی
تماشے وہ بھی خمار ازل کے دیکھتے ہیں
اسی کے ذکر سے محفل میں پھول کھلتے تھے
وہ آ گیا ہے تو سب آنکھ مل کے دیکھتے ہیں
کسی کو آج کے حالات پر قرار نہیں
ہمارے شہر میں سب خواب کل کے دیکھتے ہیں
ابھی تو لمس بدن کا حساب باقی ہے
تعلقات کے پہلو بدل کے دیکھتے ہیں
نہ کوئی نعرۂ تحسیں نما نہ داد سخن
کہ سننے والے بھی تیور غزل کے دیکھتے ہیں
نہ جانے کب سر آئینہ خوف لکھ جائے
ہم اپنا چہرہ بھی نامیؔ سنبھل کے دیکھتے ہیں

غزل
خود آزما کے بھی دعوے اجل کے دیکھتے ہیں
نامی انصاری