کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
جلوہ گر تھا ورنہ وہ خورشید تیرے من کے بیچ
پارۂ بےکار ہیں وحدت میں جب تک ہے دوئی
راہ یکتائی ہے رشتہ کے تئیں سوزن کے بیچ
صاف کر دل تاکہ ہو آئینۂ رخسار یار
مانع روشن دلی ہے زنگ اس آہن کے بیچ
ظاہر و پنہاں ہے ہر ذرہ میں وہ خورشید رو
آشکار و مختفی ہے جان جیسے تن کے بیچ
دور ہو گر شامہ سے تیرے غفلت کا زکام
تو اسی کی بو کو پاوے ہر گل و سوسن کے بیچ
کوچہ گردی تا کجا جوں کاہ باد جرس سے
گاڑ کر پا بیٹھ مثل کوہ تو مسکن کے بیچ
کیوں عبث بھٹکا پھرے ہے جوں زلیخا شہر شہر
جلوۂ یوسف ہے غافل تیرے پیراہن کے بیچ
کب دماغ اپنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن
اور ہی گل زار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ
مت مجھے تکلیف سیر باغ دے بیدارؔ تو
گل سے رنگیں تر ہے یاں لخت جگر دامن کے بیچ
غزل
کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
میر محمدی بیدار