خزاں نے ستایا نہ خاروں نے لوٹا
گلوں نے دئے دکھ بہاروں نے لوٹا
فلاحی ریاست کا نقشہ دکھا کر
غریبوں کو سرمایہ کاروں نے لوٹا
جو اسلام کے نام پر چل رہے تھے
مزا ان سیاسی اداروں نے لوٹا
کڑے وقت پر کام آنا تھا جن کو
وطن کو انہیں جاں نثاروں نے لوٹا
تجھے قاضئ شہر کیسے بتاؤں
مرا گھر مرے پہرہ داروں نے لوٹا
بظاہر تھے رہبر پس پردہ رہزن
قیادت کو امید واروں نے لوٹا
جو امداد طوفاں کے ماروں کو آئی
اسے خوب تقسیم کاروں نے لوٹا
کبھی سوچتی ہوں کہ قومی خزانہ
وضاحت طلب گوشواروں نے لوٹا
حقیقت تو یہ ہے کہ میرے وطن کو
وطن دوست تخریب کاروں نے لوٹا
تلاطم میں پہلے ہی جو لٹ چکے تھے
اے رومیؔ انہیں پھر کناروں نے لوٹا

غزل
خزاں نے ستایا نہ خاروں نے لوٹا
رومانہ رومی