EN हिंदी
خزاں کی زد پہ تھا دشمن کی بھی نگاہ میں تھا | شیح شیری
KHizan ki zad pe tha dushman ki bhi nigah mein tha

غزل

خزاں کی زد پہ تھا دشمن کی بھی نگاہ میں تھا

نور العین قیصر قاسمی

;

خزاں کی زد پہ تھا دشمن کی بھی نگاہ میں تھا
وہ سایہ دار شجر جو ہماری راہ میں تھا

زمانہ یاد بھی کرتا تو کس طرح ہم کو
ہمارا نام فقیروں میں تھا نہ شاہ میں تھا

بلندیوں سے گرا تو زمین بھی نہ ملی
وجود اپنا سنبھالے ہوئے وہ چاہ میں تھا

جنہیں غرور ہواؤں پہ تھا وہ خار ہوئے
وہ سر بلند رہا جو تری پناہ میں تھا

مرے خلاف ہوا ہے جو فیصلہ قیصرؔ
مرا حریف بھی شامل مرے گواہ میں تھا