EN हिंदी
خزاں کی بات نہ ذکر بہار کرتے ہیں | شیح شیری
KHizan ki baat na zikr-e-bahaar karte hain

غزل

خزاں کی بات نہ ذکر بہار کرتے ہیں

رشک خلیلی

;

خزاں کی بات نہ ذکر بہار کرتے ہیں
تو لوگ کیسے غموں کا شمار کرتے ہیں

یہ اہل شہر جسے خاکسار کرتے ہیں
بگولہ کہہ کے اسے بے وقار کرتے ہیں

ابھی ہمیں کسی منزل کی جستجو ہی نہیں
سفر برائے سفر اختیار کرتے ہیں

یہ کس کے وصل کی خوشبو ہے رہ گزاروں میں
کہ لوگ شام و سحر انتظار کرتے ہیں

اگرچہ بار سماعت ہیں شب کے سناٹے
کوئی سنے تو اسے ہوشیار کرتے ہیں

کچھ اور شمعیں جلانا پڑیں گی محفل میں
ابھی اندھیرے اجالوں پہ وار کرتے ہیں

ہمیں بھی رشکؔ دعاؤں سے مدعا مل جائے
یہی دعا ہے جو ہم بار بار کرتے ہیں