خزاں کے دوش پہ ہے فصل گل کا رخت ابھی
کہ برگ و بار سے خالی ہے ہر درخت ابھی
ابھی غموں سے عبارت ہے سر نوشت بشر
کہ آسمان پرے ہے زمین سخت ابھی
سمجھ شعاع بریدہ نہ صرف جگنو کو
کرن کرن کا جگر ہوگا لخت لخت ابھی
متاع جاں بھی اسے پیش کر چکا ہوں میں
مرے رقیب کا لہجہ ہے کیوں کرخت ابھی
تمام رات رہا مے کدہ نشیں جعفرؔ
گیا ہے اٹھ کے یہاں سے وہ نیک بخت ابھی
غزل
خزاں کے دوش پہ ہے فصل گل کا رخت ابھی
جعفر بلوچ