خزاں کے بے کیف منظروں کا برنگ خوشبو جواب رکھنا
کسی کی یاد کا اپنے دل میں کوئی مہکتا گلاب رکھنا
تم اپنے کردار اور عمل کو بنا کے آئینہ تلفظ
حسین لفظوں کی صورتوں میں شناختوں کی کتاب رکھنا
اداس چہرہ ہے شام غم کا دھواں دھواں شب اتر رہی ہے
ابھی سے کوئی سحر کا منظر نظر میں اپنی جناب رکھنا
بھلا نہ دے یہ زمانہ تم کو قدیم قبل مسیح کہہ کر
کہ زندگی کی کہانیوں میں کوئی حقیقت کا باب رکھنا
عناد و نفرت کا زہر کوئی بصارتوں میں کبھی نہ گھولے
ہمیشہ آنکھوں کے میکدے میں محبتوں کی شراب رکھنا
بچی کھچی نیکیوں کو تم بھی اٹھا کے دریا میں ڈال دینا
کسی بھی صالح عمل کا اپنے کبھی نہ کوئی حساب رکھنا
سحر کی دھندلی سی روشنی میں تمام دن کی بصیرتیں ہوں
شعور بیدار کرنے والے ہماری آنکھوں میں خواب رکھنا

غزل
خزاں کے بے کیف منظروں کا برنگ خوشبو جواب رکھنا
رؤف صادق