EN हिंदी
خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں | شیح شیری
KHizan ka qarz to ek ik daraKHt par hai yahan

غزل

خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں

اقبال اشہر قریشی

;

خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں
یہ اور بات کہ ہر شاخ بار ور ہے یہاں

جو سوچ سکتا ہے وہ ذہن جل رہا ہے ابھی
جو دیکھ سکتی ہے وہ آنکھ خوں میں تر ہے یہاں

سنے گا کون ان آنکھوں کی بے صدا فریاد
سماعتوں کا تو انداز ہی دگر ہے یہاں

ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے
اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا گھر ہے یہاں

حصار جسم سے باہر بھی زندگی ہے مجھے
یہ اور بات کہ احساس معتبر ہے یہاں