خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں
یہ اور بات کہ ہر شاخ بار ور ہے یہاں
جو سوچ سکتا ہے وہ ذہن جل رہا ہے ابھی
جو دیکھ سکتی ہے وہ آنکھ خوں میں تر ہے یہاں
سنے گا کون ان آنکھوں کی بے صدا فریاد
سماعتوں کا تو انداز ہی دگر ہے یہاں
ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے
اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا گھر ہے یہاں
حصار جسم سے باہر بھی زندگی ہے مجھے
یہ اور بات کہ احساس معتبر ہے یہاں
غزل
خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں
اقبال اشہر قریشی