خشت جاں درمیان لانے میں
عمر لگتی ہے گھر بنانے میں
آج پھر چاند دیر سے نکلا
تم نے پھر دیر کر دی آنے میں
اتنا نم دیدہ تھا لباس وجود
دھوپ کم پڑ گئی سکھانے میں
دیکھ کر تم کو حیرتی ہوں میں
کس قدر حسن ہے زمانے میں
پھر پیالے میں آگ لگ گئی ہے
کون آیا شراب خانے میں
میری نظروں نے اس کو نظم کیا
وہ مگن تھی غزل سنانے میں
مضطرب بھی ہوں مطمئن بھی ہوں
اپنی غزلوں کو خود جلانے میں
غزل
خشت جاں درمیان لانے میں
طالب حسین طالب