خرد یقیں کے سکوں زار کی تلاش میں ہے
یہ دھوپ سایۂ دیوار کی تلاش میں ہے
خطا چمن کی کہ ہے مبتلائے لالہ و گل
بہار صرف خس و خار کی تلاش میں ہے
چھلک رہا ہے قبائے حیا سے اس کا شباب
شراب جرأت میخوار کی تلاش میں ہے
وہ نقطہ ہوں جو بھرم ہے نقوش ہستی کا
زمانہ کیا مرے اسرار کی تلاش میں ہے
وہ اوج ہوں جو خلل ہے نظام پستی کا
وہ جرم ہوں جو سر دار کی تلاش میں ہے
خس آزما ہے محبؔ شعلہ زار باطل سے
نیا خلیل ہے گلزار کی تلاش میں ہے

غزل
خرد یقیں کے سکوں زار کی تلاش میں ہے
محب عارفی