خرد فریب نظاروں کی کوئی بات کرو
جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو
کسی کی وعدہ خلافی کا ذکر خوب نہیں
مرے رفیق ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ساز زمانے کی بات رہنے دو
خلوص دوست کے ماروں کی کوئی بات کرو
گھٹا کی اوٹ سے چھپ کر جو دیکھتے تھے ہمیں
انہیں شریر ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ذکر حوادث سے کانپ اٹھتا ہے
سکوں بہ دوش کناروں کی کوئی بات کرو
نہیں ہے حد نظر تک وجود ساحل کا
فضا مہیب ہے دھاروں کی کوئی بات کرو
سلام شوق لیے تھے کسی نے جن سے شکیبؔ
انہیں لطیف اشاروں کی کوئی بات کرو
غزل
خرد فریب نظاروں کی کوئی بات کرو
شکیب جلالی