EN हिंदी
خرد اے بے خبر کچھ بھی نہیں ہے | شیح شیری
KHirad ai be-KHabar kuchh bhi nahin hai

غزل

خرد اے بے خبر کچھ بھی نہیں ہے

سید امین اشرف

;

خرد اے بے خبر کچھ بھی نہیں ہے
نہ ہو سودا تو سر کچھ بھی نہیں ہے

چمک ساری درون شاخ گل ہے
نہال و شاخ پر کچھ بھی نہیں ہے

خلا میں بال و پر مائل بہ پرواز
زمیں پر گھر شجر کچھ بھی نہیں ہے

حقیقت بھی ہے پابند تغیر
جہاں میں معتبر کچھ بھی نہیں ہے

سہم جاتا ہوں لطف دوستاں سے
کہ دشمن ہو تو ڈر کچھ بھی نہیں ہے

یہ سارا فاصلہ دل کا ہے ورنہ
میان دشت و در کچھ بھی نہیں ہے