خرد اے بے خبر کچھ بھی نہیں ہے
نہ ہو سودا تو سر کچھ بھی نہیں ہے
چمک ساری درون شاخ گل ہے
نہال و شاخ پر کچھ بھی نہیں ہے
خلا میں بال و پر مائل بہ پرواز
زمیں پر گھر شجر کچھ بھی نہیں ہے
حقیقت بھی ہے پابند تغیر
جہاں میں معتبر کچھ بھی نہیں ہے
سہم جاتا ہوں لطف دوستاں سے
کہ دشمن ہو تو ڈر کچھ بھی نہیں ہے
یہ سارا فاصلہ دل کا ہے ورنہ
میان دشت و در کچھ بھی نہیں ہے
غزل
خرد اے بے خبر کچھ بھی نہیں ہے
سید امین اشرف