خراماں شاہد سیمیں بدن ہے
قیامت آسمانی پیرہن ہے
تبسم ہے کہ موج نور و نکہت
نظر ہے یا محبت کی کرن ہے
مری مستی کا اندازہ ہے کس کو
نگاہ ناز میری ہم سخن ہے
وہ میری زندگی پر حکمراں ہیں
مرے بس میں نہ یہ تن ہے نہ من ہے
ہزاروں رنگ ہیں میری نظر میں
تصور میں کسی کی انجمن ہے
خیالوں میں مرے لہرا رہی ہیں
وہ زلفیں جن میں بوئے یاسمن ہے
ابھی اس میں خزاں آنے نہ پائے
یہ نو رس آرزوؤں کا چمن ہے
کہاں اب وہ مذاق سرفروشی
زباں پر قصۂ دار و رسن ہے
نہیں بدلے ترے مضطرؔ کے انداز
وہی مستی وہی دیوانہ پن ہے
غزل
خراماں شاہد سیمیں بدن ہے
رام کرشن مضطر