کھلے جو پھول تو منہ چھپ گیا ستاروں کا
مثال ابر چلا کارواں بہاروں کا
نہ مجھ سے پوچھ شب ہجر دل پہ کیا گزری
یہ دیکھ حال ہے کیا میرے غم گساروں کا
نئی بہار ہنسے اک نیا چمن کھل جائے
سمجھ سکے کوئی مطلب اگر اشاروں کا
شب سیاہ کے لمحے گزار لینے دو
گھڑی گھڑی نہ کرو ذکر ماہ پاروں کا
دکھائی دیتی ہے اس طرح روپ رنگ کی بات
فضا میں رقص ہو جس طرح ابر پاروں کا
ہوا نہ راہ میں حائل کوئی شگوفہ بھی
رواں دواں ہی رہا قافلہ بہاروں کا
مجھے بھی اہل جہاں بھول جائیں گے شہزادؔ
کسے خیال ہے ڈوبے ہوئے ستاروں کا
غزل
کھلے جو پھول تو منہ چھپ گیا ستاروں کا
شہزاد احمد