EN हिंदी
کھلے ہوئے ہیں پھول ستارے دریا کے اس پار | شیح شیری
khile hue hain phul sitare dariya ke us par

غزل

کھلے ہوئے ہیں پھول ستارے دریا کے اس پار

صابر وسیم

;

کھلے ہوئے ہیں پھول ستارے دریا کے اس پار
اچھے لوگ بسے ہیں سارے دریا کے اس پار

مہکی راتیں دوست ہوائیں پچھلی شب کا چاند
رہ گئے سب خوش خواب نظارے دریا کے اس پار

بس یہ سوچ کے سرشاری ہے اب بھی اپنے لیے
بہتے ہیں خوشبو کے دھارے دریا کے اس پار

شام کو زندگی کرنے والے رنگ برنگے پھول
پھول وہ سارے رہ گئے پیارے دریا کے اس پار

یوں لگتا ہے جیسے اب بھی رستہ تکتے ہیں
گئے زمانے ریت کنارے دریا کے اس پار

گونجتی ہے اور لوٹ آتی ہے اپنی ہی آواز
آخر کب تک کوئی پکارے دریا کے اس پار

دہکی ہوئی اک آگ ہے صابرؔ اپنے سینے میں
جاتے نہیں پر اس کے شرارے دریا کے اس پار