کھل اٹھے پھول مہک مجھ کو ہوا سے آئی
ابر کے روپ میں بلقیس صبا سے آئی
کان کے ساتھ کھلی آنکھ کی پتلی لیکن
کوئی تصویر ابھر کے نہ صدا سے آئی
ریگ ساحل کی تب و تاب کی دشمن ٹھہری
لہر جو بھی پس دیوار ہوا سے آئی
دائمی کر لیا اس کو کہ سر عرصۂ شب
دل کو جو ساعت غم دینے دلاسے آئی
جو تمنا کبھی آئی نہ تھی لب پر خالدؔ
آج خوں ہو کے رہی دیدۂ وا سے آئی

غزل
کھل اٹھے پھول مہک مجھ کو ہوا سے آئی
خالد شیرازی