کھینچ کر لے جائے گا انجان محور کی طرف
ہے بدن کا راستہ باہر سے اندر کی طرف
وہ بھی اپنے سانس کے سیلاب میں ہے لاپتہ
جو مجھے پھیلا گیا میرے ہی منظر کی طرف
اب خلاؤں کو سمیٹے ہر طرف ہوں گامزن
آج ہے میرا سفر اپنے ہی پیکر کی طرف
کوئی تو پانی کی ویرانی کو سمجھے گا کبھی
دیکھتا رہتا ہوں اب میں بھی سمندر کی طرف
ذہن کی قبروں میں پھر سے صور گونجا ہے ریاضؔ
تنگی اظہار چل اک اور محشر کی طرف
غزل
کھینچ کر لے جائے گا انجان محور کی طرف
ریاض لطیف