کھڑکیوں سے جھانک کر گلیوں میں ڈر دیکھا کیے
گھر میں بیٹھے رات دن دیوار و در دیکھا کیے
ایسا منظر تھا کہ آنکھیں دیکھ کر پتھرا گئیں
پھر نہ دیکھا کچھ مگر نیزوں پہ سر دیکھا کیے
رات بھر سوچا کیے اور صبح دم اخبار میں
اپنے ہاتھوں اپنے مرنے کی خبر دیکھا کیے
ایک تارا ناگہاں چمکا گرا اور بجھ گیا
پھر نہ آئی نیند تارے رات بھر دیکھا کیے
وہ تو خوابوں میں بھی خوشبو کی طرح آتا رہا
پھول کی مانند اس کو ہم مگر دیکھا کیے
کون تھا وہ کب ملا تھا کیا پتہ علویؔ مگر
دیر تک ہم اس کو آنکھیں موند کر دیکھا کیے
غزل
کھڑکیوں سے جھانک کر گلیوں میں ڈر دیکھا کیے
محمد علوی