کھڑکیاں کس طرح کی ہیں اور در کیسا ہے وہ
سوچتا ہوں جس میں وہ رہتا ہے گھر کیسا ہے وہ
کیسی وہ آب و ہوا ہے جس میں وہ لیتا ہے سانس
آتا جاتا ہے وہ جس پر رہ گزر کیسا ہے وہ
کون سی رنگت کے ہیں اس کے زمین و آسماں
چھاؤں ہے جس کی یہاں تک بھی شجر کیسا ہے وہ
اک نظر میں ہی نظر آ جائے گا وہ سر بسر
پھر بھی اس کو دیکھنا بار دگر کیسا ہے وہ
میں تو اس کے ایک اک لمحے کا رکھتا ہوں شمار
اور میرے حال دل سے بے خبر کیسا ہے وہ
اس کا ہونا ہی بہت ہے وہ کہیں ہے تو سہی
کیا سروکار اس سے ہے مجھ کو ظفرؔ کیسا ہے وہ
غزل
کھڑکیاں کس طرح کی ہیں اور در کیسا ہے وہ
ظفر اقبال