EN हिंदी
کھڑکیاں کھول کے کیسی یہ صدائیں آئیں | شیح شیری
khiDkiyan khol ke kaisi ye sadaen aain

غزل

کھڑکیاں کھول کے کیسی یہ صدائیں آئیں

عزیز پریہار

;

کھڑکیاں کھول کے کیسی یہ صدائیں آئیں
یاد یہ کس کی دلانے کو صدائیں آئیں

ذہن کی دھند نے عمروں کو سوالی رکھا
دھند کے پردے سے کتنی ہی شعاعیں آئیں

توڑ کر کون سی زنجیر یہ مجرم آئے
جرم تھا کون سا ان کا جو سزائیں آئیں

میں تجھے بھول کے دنیا سے لپٹ جاتا ہوں
ایسا کرنے سے نہ جینے کی ادائیں آئیں

جب کبھی خواب جزیروں پہ بلایا مجھ کو
خیر مقدم کو مرے نور فضائیں آئیں

نام اک دل میں دھڑکتا ہے صحیفہ بن کر
اس صحیفے کی حفاظت کو ہوائیں آئیں