کھڑکی سے اس صنم کا جو مکھڑا نظر پڑا
طاق حرم سے جلوہ خدا کا نظر پڑا
سات آسماں کی سیر ہے پردوں میں آنکھ کے
آنکھیں کھلیں تو طرفہ تماشا نظر پڑا
دیکھا ہے آنکھ نے ترا جی چاہے پوچھ دیکھ
اے دل میں کیا کہوں مجھے کیا کیا نظر پڑا
انسان ان کو دیکھ رکے کیونکہ آنکھ سے
حور و پری کو جن کا نہ سایا نظر پڑا
میں مست ہوں مذاقؔ مے انتظار سے
ساقی نہ مے نہ جام نہ مینا نظر پڑا

غزل
کھڑکی سے اس صنم کا جو مکھڑا نظر پڑا
مذاق بدایونی