کھڑکی سے مہتاب نہ دیکھو
ایسے بھی تم خواب نہ دیکھو
ڈوب رہے سورج میں یارو
دن کی آب و تاب نہ دیکھو
ہرجائی ہیں لوگ یہاں کے
اس بستی کے خواب نہ دیکھو
اندر سے ہم ٹوٹ رہے ہیں
باہر کے اسباب نہ دیکھو
فن دیکھو بس ملاحوں کا
دریا کے سیلاب نہ دیکھو
سچے سپنے دو آنکھوں کو
جھوٹے ہوں وہ خواب نہ دیکھو
دیوانہ ہوں دیوانہ میں
تم میرے آداب نہ دیکھو
غم میں بھی ہم خوش رہتے ہیں
غم سہنے کی تاب نہ دیکھو
دیکھو اپنے عیب ظفرؔ جی
کیسے ہیں احباب نہ دیکھو
غزل
کھڑکی سے مہتاب نہ دیکھو
ظفر کلیم