کھڑکی میں ایک نار جو محو خیال ہے
شاید کسی کے پیار کو پانے کی چال ہے
کمرے کی چیز چیز پہ ہے حسرتوں کی گرد
آنگن میں اجلی دھوپ کا پھیلا جمال ہے
الفاظ کے گہر تری خاطر پرو لیے
یہ بھی تو تیرے حسن طلب کا کمال ہے
اظہار عشق کرتا ہے اب راہ چلتے بھی
اس عہد کا جواں بڑا روشن خیال ہے
برسوں کے یار کب کے جدا ہو گئے سعیدؔ
اس شہر میں ضرور مروت کا کال ہے
غزل
کھڑکی میں ایک نار جو محو خیال ہے
تاج سعید