EN हिंदी
کھیلا بچپن جھوما لڑکپن لہکی جوانی چوباروں میں | شیح شیری
khela bachpan jhuma laDakpan lahki jawani chaubaron mein

غزل

کھیلا بچپن جھوما لڑکپن لہکی جوانی چوباروں میں

عشرت قادری

;

کھیلا بچپن جھوما لڑکپن لہکی جوانی چوباروں میں
لاٹھی تھامے دیکھا بڑھاپا نگری کے گلیاروں میں

نرت پہ جھومیں بھاؤ پہ لہکیں مدرا پی کر بہکیں لوگ
کون سنے جو چیخیں دبی ہیں پائل کی جھنکاروں میں

بھولے بسرے سپنے کھوجیں بیاکل نیناں بے کل ہردے
چندر کرن سی مسکاتی تھی دہکے ہوئے انگاروں میں

نیل گگن پر جس کا سنگھاسن وہ ہے جگ کا پالنہار
پاگل خود کو داتا سمجھے سپنوں کے سنساروں میں

وہ چندر کرن وہ روپ متی وہ میری کویتا میری غزل
میلے میں کچھ ایسے بچھڑی ڈوب گئی اندھیاروں میں

چھلکی چھلکی آنکھیں چھپائے ہونٹوں پر مسکان سجائے
تم جیسا دکھیارا نہ دیکھا عشرتؔ جی دکھیاروں میں