کھیل اس نے دکھا کے جادو کے
میری سوچوں کے قافلے لوٹے
یا تو دھڑکن ہی بند ہو جائے
یا یہ خاموشیٔ فضا ٹوٹے
تم جہاں بھی ہو میرے دل میں ہو
تم مرے پاس تھے تو ہر سو تھے
نغمۂ گل کی باس آتی ہے
تار کس نے ہلائے خوشبو کے
اس کو لائیں تو ایک بات بھی ہے
ورنہ سب دوست آشنا جھوٹے
نخل امید سبز ہے امجدؔ
لاکھ جھکڑ چلا کئے لو کے
غزل
کھیل اس نے دکھا کے جادو کے
امجد اسلام امجد